اس ترقی یافتہ دور میں انسان علم و ہنر کے مراحل سے گزر کر خود کو تمام
صلاحیتوں کاجامع سمجھنے لگا ہے۔ وہ اس فانی دنیا میں اس قدر مگن اور غرق ہے کہ اسے
اپنی بے وقعتی کا بالکل احساس نہیں۔ حالانکہ اس کی حاصل کی ہوئی ترقی کا ہر ستون
ہر لمحہ کمزور ہوکر اس کے ناقص علم کی بظاہر پر شکوہ عمارت کو ڈگمگاتا رہتا ہے۔ ترقی
کی آڑ میں پوشیدہ تنزلی ، علم کے دھوکا میں جہل اور اختیارات کے فریب کی جڑ میں
کمزوری اکثر وبیشتر اس ہلتی عمارت سے کسی ستون کو منہدم بھی کردیتے ہیں، جس کی بے
شمار مثالیں ہمیں آئے دن ہر سطح اور ہر شعبہ میں نظر آتی ہیں۔
آج ٹکنالوجی کے جن مراحل کو ترقی کی شان سمجھا جارہا ہے، وہ کبھی نہ کبھی
اپنی اصل ظاہر کرتے ہوئے انسان کے لیے رحمت کی جگہ زحمت بن جاتے ہیں۔ تمام عالم
میدان حشر کا نمونہ بنتا جا رہا ہے، جہاں160ہر نفس اپنی ذات میں160گم اور مطلب و
مفاد پرستی میں سراپا غرق ہورہا ہے، انسانیت ہر وقت ایک انجانے خوف اور ایٹمی جنگ
کے مہلک اثرات سے لرزاں ہے۔اس کرب ناک دور میں کیا کوئی ایسی شئی ہے جو انسان کو
اسے ذہنی اور قلبی سکون عطا کرسکتی ہے؟ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ
اعتراف کرنا پڑیگا کہ جب بھی اس قسم کے ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوئے ہیں، تو ہمیشہ
تصوف اور حقیقی ارباب تصوف نے آگے بڑھ کر ان کا مقابلہ کیا ہے۔ تصوف ایسا علم ہے
جس کے ذریعے نفوس کے تزکیہ ، اخلاق کی صفائی اور ظاہرو باطن کی تعمیر کے احوال کو
جانا جاتا ہے، تاکہ ابدی خوش بختی حاصل ہوسکے۔
تصوف اسلام کا پہلا دور ان نفوس قدسیہ پر مشتمل ہے جنہیں صحابہ کہا جاتا
ہے۔ اور جنھوں نے بارگاہ نبوی سے تطہیر قلب و تزکیہ نفس کے اصول و آداب سیکھے۔
ایثار و قربانی کے جذبۂ صادقہ سے حصہ خاص پایا، جو د و سخا کا اصول پایا۔ خوف و
خشیت الٰہی سے قلب و جگر کو گرمانے والے طریقے سیکھے۔ نفس کے ساتھ جہاد اور اعمال
و اخلاق حسنہ کی تعلیم حاصل کی۔ تصوف کے اندر زہد کو بڑا اعلیٰ مقام حاصل ہے۔
صوفیائے کرام نے زہد و ورع کو تصوف کے شعبوں میں160بطور خاص ذکر فرمایا ہے۔ علما و
اصفیا فرماتے ہیں کہ دل کو دینا کی خواہش و محبت سے خالی کرکے اسے اللہ کی محبت و
معرفت سے آباد کرنے کا نام زہد ہے۔ زہد کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ انسان دنیا کو
ناقابل اعتنا سمجھے۔ قرآن و احادیث میں جابجا دنیا کی محبت کی مذمت بیان کی گئی
ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ علیہ دنیا کے بارے میں ایک حدیث نقل فرماتے ہیں کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے دنیا کو پسند کیا اس نے آخرت کا
نقصان کیا۔ اور جس نے آخرت کو پسند کیا اس نے دنیا کا نقصان کیا تو اس چیز کو
اختیار کرو، جس کا نفع پائدار اور دائمی ہے، اس کو چھوڑو جو صرف چند دن ہے۔
تصوف ابن آدم کی سرشت کا گراں قدر راز سربستہ ہے، جس کا حصول مادیت اور
ظاہری چکا چوند کو شکست دینے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ وہ کوئی سائنس ،فلسفہ نہیں ہے
جس کی تعبیریں اور مفہوم زمانہ کے نشیب و فراز کے ساتھ بدلتے رہیں۔ محسن انسانیت
حضور اکرم کے عہد مبارک میں160بھی اس کی وہی تعریف تھی جو آج ہے، تصوف کا راستہ
اختیار کرنے والے قرآن و سنت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں160بے شمار
واقعات نبیوں و رسولوں کے زہد و تقویٰ اور تسلیم و رضا کے ذریعہ قائم کردہ تصوف کے
سلسلے کی نشا ند ہی کرتے ہیں، قرآن مجید نے خواتین کو بھی تصوف کے راستے کا راہی
بنایا ہے۔ بے آب و گیاہ وادی میں حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی تنہائی میں160توکل
کی دولت اور اس کی بدولت ایک ابدی چشمے کا پھوٹنا اور قیامت تک اس فیض باری کا
جاری رہنا، انبیاے کرام علیہم السلام کی مقدس ذاتوں کے علاوہ بھی قرآن مجید نے
تصوف کے سلسلے کو جاری رکھا۔ سورہ کہف میں160نماز والوں کا معاملہ۔ عہد نبوی کے
بعد تصوف کا سلسلہ صحابہ کرام و تابعین و تبع تابعین کے ذریعہ آگے بڑھتا رہا۔ یہ
سلسلہ ہر زمانہ میں160موجود رہا، اور موجود رہیگا۔ تصوف کا گہرا تعلق تفکر سے بھی
ہے۔ قرآن مقدس جہاں ایک طرف ذکر و دعا کی ترغیب دیتا ہے وہیں160 اور فکر اور تدبر
کی بھی ترغیت فراہم کرتا ہے۔ سنت نبوی کی سب سے پہلی مثال غار حرا میں ملتی ہے، جو
اسلام کی سب سے پہلی خانقاہ تھی۔
دنیا آج بھی جس افراتفری ، شخصی بغض و عناد ، خود غرضی و مفاد پرستی اور ہر
ممکنہ بد عملی کا شکار اور برائیوں میں گرفتار ہے اس میں160اگر اسے کوئی چیز درکار
ہے تووہ ہے رحمت و عافیت۔آقا نے آنے والے زمانہ کے سلسلے میں160فرمایاتھا کہ عن
قریب ایسے فتنے بپا ہوں گے جن میں160بیٹھنے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا، چلنے
والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ جو ان فتنوں کی طرف جھانکیگا وہ اس کی طرف آئیں گے۔
لہذا جو شخص بھی کوئی پناہ گاہ کے تصور کو ہی نمایاں نہیں160کرتا بلکہ خانقاہوں کا
وجود صرف پناہ گاہ کی تصور کو ہی نمایاں نہیں کرتا بلکہ ٹھہرنے، قیام کرنے غور و
فکر کرنے کی بھی ترغیب دیتا ہے۔ خانقاہی نظام میں خوش خلقی و تواضع۔ ایثار و
قربانی کا مزاج بنتا ہے اخلاص و بے نفسی اور اخلاقی اقدار کو اپنی شخصیت کا لا ینفک
حصہ بنانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، مقصد حیات سے ناواقف اس راز سے آگاہ ہوئے ہیں۔
اور خالق و مخلوق کے رشتے سے آشنا ہوتے ہیں۔ وہ ظاہر و باطن میں یکسانیت پر سختی
سے عمل کرتے ہیں۔ حضرات صوفیہ کے یہاں صبر و شکر اور ایثار کی جیسی مثالیں ملتی
ہیں، ان کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر یہ بات طے ہوچکی ہے
کہ صالح و صحت مند معاشرہ کی تشکیل و تعمیر۔ اور امن عالم، آپسی میل محبت کے لیے
صوفیاے کرام ان کی تعلیمات و خدمات و افکار کی خصوصیت کیساتھ ترویج و اشاعت کی
جائے۔ حدیث شریف میں ہے کہ تمام مخلوق اللہ تبارک و تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ اس کے
نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس مخلوق کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو۔ لہذا
تصوف سے ہی تفریق و انتشار کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ اس کی گواہ بھی ہے۔ حجر
اسود نصب کرنے والا واقعہ اس کا واضح ثبوت پیش کرتا ہے۔ یہ واقعہ مراصل اسلام نیز
تصوف کے روحانی پیغام کا علم بردار ہے۔ اگر ذرا سی حکمت عملی سے کام لیا جائے۔ تو
اس واقعہ کی روشنی میں آج بھی بہت سے اختلافی مسائل کے حل نکل سکتے ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج کچھ لوگ تصوف اور چشتیت کا لبادہ اوڑھ کر سادہ
لوح عوام کو اپنے دام فریب میں پھنسانے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ
ہیں160جو برسوں سے مزارات اور بزرگان دین پر طعن و تشنیع کی بوچھار کرتے ہوئے نظر
آرہے تھے۔ تصوف اور صوفی ازم کے نام پر پوری دنیا میں گھوم گھوم کر اپنی دوکان
چمکانے والے نام نہادوں کو جب آل انڈیا علمامشایخ بورڈ کے قومی صدر پیر طریقت
انٹرنیشل اسلامی اسکالر علامہ سید محمد اشرف کچھوچھوی نے بینقاب کرتے ہوئے جب ان
اصل تعارف کرایا تو لوگ حیرت و استعجاب کے عالم میں پڑ گئے اور پھر ان لوگوں کے
لیے لمبی چوڑی دنیا تنگ ہوتی ہوئی نظر آنے لگی۔ اپنا دائرہ سمٹتا ہوا دیکھ کر طرح طرح
کے پلان بنائے جانے لگے۔ حضرت علامہ سید محمد اشرف کچھوچھوی نے راقم الحروف سے
دوران گفتگو بتایا کہ آج بھی اگر خلوص و للہیت کے ساتھ سنت رسول کے آئینہ
میں160کام کیا جائے۔ تو دین کا بڑا کام ہوسکتا ہے۔ تصوف اپنی ہمہ گیر اور افادیت
کی وجہ سے آج مغربی دنیا کا بھی مقبول و محبوب موضوع بن چکا ہے۔ بر صغیر ہند و پاک
سے زیادہ اہل مغرب اس کی اہمیت کو محسوس کرکے اپنی اپنی سطح پر اس کی اشاعت و
ترویج میں کوشاں ہیں کیوں کہ ہر ایک کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ انسانیت کی بقا و
سلامتی ہے۔ اور اس کے حل کا واحد ذریعہ تصوف اور خانقاہوں کا وجود ہے۔
No comments:
Post a Comment