عہد نامہ اور اس کے فوائد


اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ  اَنْتَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۝ اللّٰهُمَّ إِنیِّْ- ۤأَعْهَدُ إِلَيْكَ فِيْ هٰذِهِ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ أَشْهَدُ أَنْ لَّآ إِلٰهَ إِلَّاۤ أَنْتَ  وَحْدَكَ لَاشَرِيْكَ لَكَ  وَ اَشْھَدُأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ   فَلَا تَکِلْنِیْ إِلَى نَفْسِي فَإِنَّكَ إِنْ تَكِلْنِيۤ إِلَى نَفْسِي تُقَرِّبْنِي اِلیَ الشَّرِّ وَتُبَاعِدْنِي مِنْ الْخَيْرِ  وَإِنِّي لَاۤ أَ تَّکِلُ  إِلَّا بِرَحْمَتِكَ  فَاجْعَلْ لِيْ عِنْدَكَ عَهْدًا تُوَفِّيْهِ اِلَی يَوْمَ الْقِيَامَةِ  إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ ۝ وَصَلَّى اللهُ تَعَالٰى عَلىٰ خَيْرِخَلْقِهٖ مُحَمَّدٍ وَ اٰلِهٖ وَ اَصْحَابِهٖ اَجْمَعِيْنَ۝ بِرَحْمَتِكَ يَا ٓاَرْحَمَ الرّٰاحِمِيْنَ o-

         سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں کہ(١)قبر میں عہدنامہ یا شجرہ وغیرہ رکھنا کیسا ہے ؟(٢)اگر جائز ہے تو  انہیں قبر میں  کس جگہ رکھا جائے ؟                         سائل : حاجی محمد اقبال (مسلم آباد ، کراچی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۝ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

(١)عہد نامہ اگر میت کی پیشانی یا اس کے عمامہ یا اس کے کفن پر لکھ دیا جائے تو امید ہے کہ اللہ تعالی میت کی مغفرت فرمادے اور اسے عذاب قبر سے محفوظ فرمائے ، اسی طرح دیگر متبرک اشیاء کو  برکت کی نیت سے قبر یا کفن میں رکھناجائز ہے  بلکہ احادیث ، صحابۂ کرامعلیہمُ الرِّضوان کے عمل ، کتب فقہ اور اقوال بزرگا ن دین سے بھی ثابت  ہےاوران متبرک اشیاء کےقبر میں موجود ہونے کے  سبب اللہسبحانہ وتعالیٰ سے امید ہےکہ میت کو نفع پہنچے گا ۔ مصنف عبدالرزاق میں ہے : معمربن عبداللہ  بن محمد عقیل  نے ہمیں خبر دی کہ حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا  نے انتقال کے قریب  امیر المومنین علی المرتضیرضی اللہ عنہ  سے اپنے غسل  کے لیے پانی رکھوا دیا  پھر نہائیں  اور کفن  منگا کر پہنا اور حنوط کی خوشبو لگا ئی پھر مولیٰ علی کو وصیت فرمائی کہ میرے انتقال کے بعد  کوئی مجھے  نہ کھولے اور اسی  کفن  میں دفن فرما دی جائیں میں نے پوچھا  کسی اورنے بھی ایسا کیا ؟

 کہا : ہاں کثیر  بن عباس نے اور انہوں نے اپنے کفن کے کناروں  پر لکھا تھا  کہ کثیر بن عباس گواہی دیتا ہے کہ اللہ  کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ۔(مصنف عبدالرزاق ، ٣/٤١١)    ردالمحتار میں علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: بزازیہ میں  کتاب الجنایات سےتھوڑا پہلے ہے کہ امام صفار علیہ الرحمہ  نے فرمایا اگر میت کی پیشانی یا اس کے عمامہ یا اس کے کفن پر عہد نامہ لکھ دیا جائے تو امید ہے کہ اللہسبحانہ وتعالیٰ میت کی مغفرت فرمادے اور اسے عذاب قبر سے محفوظ فرمائے۔(در مختار مع رد المحتار ، ١٨٥/٣)

  سیدی اعلی حضرت  امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں : امام ترمذی حکیم الٰہی سیّدی محمد بن علی معاصر امام بخاری رحمہمااللہ  نے نوادرالاصول میں روایت کی کہ خود حضورسید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو یہ دعاکسی پرچہ پر لکھ کر میت کے سینہ پر کفن کے نیچے رکھ دے اسے عذابِ قبر نہ ہو نہ منکر نکیر نظر آئیں ، اور وہ دعا یہ ہے : لآ الٰہ الااﷲ واﷲ اکبرلآالٰہ الاﷲ وحدہ، لاشریک لہ لاالٰہ الااﷲ لہ الملک ولہ الحمد لاالٰہ الااﷲ ولاحول ولاقوۃ الّاباﷲالعلی العظیم۔  مزید فرماتے ہیں:’’ترمذی میں سیّدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو ہر نماز میں سلام کے بعد یہ دُعا پڑھے : اللھم فاطرالسموت والارض عالم الغیب و الشھادۃ الرحمٰن الرحیم انی اعھد الیک فی ھذہ الحیاۃ الدنیابانک انت اﷲ الذی لا الہ الا انت وحدک لاشریک لک وان محمّداً عبدک ورسولک فلاتکلنی الی نفسی فانک ان تکلنی الی نفسی تقربنی من الشر وتباعدنی من الخیر وانی لا اثق الا برحمتک فاجعل رحمتک لی عھداً عندک تؤدیہ الی یوم القیمۃ انک لاتخلف المیعادفرشتہ اسے لکھ کر مُہر لگا کر قیامت کے لئے اُٹھارکھے ، جب  اللہ تعالٰی اُس بندے کو قبر سے اُٹھائے ، فرشتہ وہ نوشتہ ساتھ لائے اور ندا کی جائے عہد والے کہاں ہیں ، انہیں وہ عہد نامہ دیا جائے‘‘۔  امام نے اسے روایت کرکے فرمایا:  امام طاؤس کی وصیّت سے عہد نامہ اُن کے کفن میں لکھا گیا۔ امام فقیہ ابن عجیل نے اسی دعائے عہدنامہ کی نسبت فرمایا :  جب یہ دعا لکھ کر میت کے ساتھ قبر میں رکھ دیں تو  اللہ سبحانہ وتعالیٰ  اُسے سوالِ نکیرین  وعذابِ قبر سے امان دے۔(فتاوی رضویہ ، ١٠٨/٩)

    تبرکات کے بارے میں بخاری شریف کی حدیث پاک میں ہے : ’’ ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے فرماتی ہیں کہ جب ہم حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی صاحب زادی کو غسل دے رہی تھیں تو ہمارے پاس رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم تشریف لائے  اور فرمایا کہ انہیں  تین بار یا پانچ بار اوراگر مناسب جانو تو اس سے زائد بار بیری  کے پتوں والے پانی سے غسل دو اور آخر میں  کافور ڈال دو یا فرما یا کچھ کافو ر  ڈال دوجب ہم فارغ ہو گئیں  تو ہم نے  آپ کو اطلاع دی تو آپ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے  ہمیں اپنا تہبند شریف عطا کیا اور فرمایا  کہ اسے ان کے کفن میں رکھ دو۔ ‘‘(١٦٨/١)   

  اسی حدیث مبارکہ کے تحت مراٰۃ المناجیح میں ہے : اس سے تین مسئلے معلوم ہوئے  ایک یہ کہ بزرگوں کے بال ، ناخن ، ان کے استعمالی کپڑے تبرک ہیں جن سے دنیا ، قبر و آخرت  کی مشکلات حل ہوتی ہیں قرآن شریف میں ہے  کہ حضرت سیدنا یوسف علیہ السَّلام کی قمیض  کی برکت سے حضرت سیدنا یعقوب علیہ السَّلام کی آنکھیں روشن ہوگئیں  احادیث میں ثابت ہے  کہ حضرت امیر معاویہ ، عمرو بن عاص و دیگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے حضورصلَّی اللہ علیہ وسلَّم کے ناخن ، بال و تہبند شریف اپنے ساتھ  قبر میں لے جانے کے لیے محفوظ رکھے دوسرے یہ کہ  بزرگوں کے تبرکات  اور قرآنی آیت یا دعا کسی کپڑےیا کاغذ پر لکھ کر  میت  کے ساتھ  قبر میں دفن کرنا جائز بلکہ سنت ہے ۔ (٤٤٦/٢)   امام ابو عمر یوسف بن عبدالبر کتاب الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں فرماتے ہیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے انتقال کے وقت وصیت میں فرمایا :  میں صحبتِ حضور سید عالمصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے شرف یاب ہوا ایک دن حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ وسلم حاجت کے لئےباہر تشریف  لے گئے اور میں پانی کا برتن ساتھ لئے پیچھے چل پڑا ، حضور  پُرنورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے  جوڑے سے  کُرتا کہ بدنِ اقدس سے متصل تھا مجھے انعام فرمایا ، وہ کُرتا میں نے آج کے لئے چھپا رکھا تھا۔ اور ایک روز حضورِ انورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ناخن و موئے  مبارک تراشے وہ میں نے لے کر اس دن کے لئے اٹھا رکھے ، جب میں مرجاؤں تو قمیص سراپا تقدیس کو میرے کفن کے نیچے بدن کے متصل رکھنا ، و موئے مبارک وناخن ہائے مقدسہ کو میرے منہ اور آنکھوں اور  پیشانی وغیرہ مواضع سجود  پر رکھ دینا‘‘ ۔ (کتاب الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب ، ٣٩٩/٣) روایت  ہے کہ:’’  ثابت بنانی فرماتے ہیں مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ موئے مبارک سیّدِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ہے ، اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا ، ثابت بنانی فرماتے ہیں کہ میں نے اس موئے مبارک کو ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا ،  وہ یوں ہی دفن کئے گئے کہ مُوئے مبارک اُن کی زبان کے نیچے تھا ، اسے اصابہ میں ذکر کیا گیا۔ ‘‘ (اصابہ فی تمیز الصحابہ ،۷٢/١)

    (٢)اور عہد نامہ وغیرہ قبر میں رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے میت کے منہ کے سامنے  قبلہ کی جانب دیوار میں جگہ  بنا کر اس میں رکھیں  البتہ  سینہ کے اوپر کفن کے نیچے رکھنا بھی جائز ہے ۔ اوردیگر تبرکات کا بھی یہی طریقہ ہونا چاہئے نیز جب کفن پر کچھ لکھنا ہو تو بہتر یہ ہے کہ روشنائی سے نہ لکھا جائے بلکہ شہادت کی انگلی سے لکھا جائے ۔ صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں:’’شجرہ یا عہد نامہ قبر میں رکھنا جائز ہے اور بہتر یہ ہے کہ میّت کے مونھ کے سامنے قبلہ کی جانب طاق کھود کر اس میں رکھیں ، بلکہ درمختار میں کفن پر عہد نامہ لکھنے کو جائز کہا ہے اور فرمایا کہ اس سے مغفرت کی امید ہے اور میّت کے سینہ اور پیشانی پر   لکھنا جائز ہے۔ ایک شخص نے اس کی وصیّت کی تھی ، انتقال کے بعد سینہ اور پیشانی پر لکھ دی گئی پھر کسی نے انھيں خواب میں دیکھا ، حال پوچھا؟ کہا : جب میں قبر میں رکھا گیا ، عذاب کے فرشتے آئے ، فرشتوں نے جب پیشانی پر  دیکھی کہا تو عذاب سے بچ گیا۔(درمختار ، غنیہ ، عن التاتار خانیہ) یوں بھی ہو سکتا ہے کہ پیشانی پر  لکھیں اور سینہ پر کلمہ طیبہ مگر نہلانے کے بعد کفن پہنانے سے پیشتر کلمہ کی انگلی سے لکھیں روشنائی سے نہ لکھیں۔(بہار شریعت ، ٨٤٨/١)  وَاللّٰہُ اَعْلَمُ   وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

No comments:

Post a Comment