مسلمان میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد اذان دینا جائز ہے بلکہ باعث ِنجات بھی ہے لیکن آج کے بد عقیدے حضرات ( وہابی/ دیوبندی /سلفی وغیرہ) اس کو بدعت و شرک نہ معلوم کیا کیا کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ حرام کے بھی قائل ہیں ۔یہ سراسر غلط ہے۔ امام اہلسنت حضور اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اس کا جواب فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: قبر پر اذان دینے کو جس نے حرام کہا محض غلط کہا،اگر سچا ہے تو بتائے کہ کس آیت یا حدیث میں اس کو حرام فرمایا گیا ہے، اگر نہ بتا ئے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا کرنے کا اقرار کرے ۔حرام وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے حرام فرمایا ہے اور واجب وہ ہے جسے خدا ئے وحدہ لا شریک اور حبیب خدا ﷺ نے واجب کہا ، لیکن وہ چیز یں جن کا نہ خدا و رسول نے حکم دیا اور نہ منع کیا وہ سب جائز ہیں۔ انہیں حرام کہنے والا خدا اوراس کے رسول پر افتراء کرتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ٩٦/٤)
شامی میں ہے :دفن کرنے بعد تلقین سے منع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس میں
کوئی نقصان تو ہے نہیں بلکہ اس میں نفع ہے۔ کیونکہ میت ذکر الہی سے انس حاصل کرتا ہے۔
علامہ شامی فرماتے ہیں کہ علامہ خیرالدین
رمل " البحرالرائق "کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ بعض کتاب شافعیہ میں مرقوم
ہے کہ نومولود، غمردہ، مرگی میں مبتلا،
غصہ سے موہوش، اور بد خلق کے کان میں اذان
دینا، جہاد میں گھمسان کی جنگ کے وقت اور آگ لگنے کے وقت اذان دینا سنت ہے اسی طرح
میت کو قبر میں اتارتے وقت بھی اذان دینے کو مسنون لکھا ہے ۔تاکہ میت کی انتہا ابتدا
ء کے اور موت وپیدائش کے موافق ہو جائے یعنی
جس طرح دنیا میں آتے وقت اذان سنی تھی اسی طرح دنیا سے جاتے وقت بھی اذان سن کر جائے
۔(شرح صحیح مسلم ١٠٧١/١)
منکر نکیر
کے سوالات کے وقت شیطان میت کو بہکاتا ہے اور
اس کے جواب میں مداخلت کرتا ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے اگر قبر کے امتحان میں مردہ
نا کام ہو گیا اور شیطان اپنے مقصد میں کامیاب
، تو آئندہ کی زندگی بھی برباد ہو جائے گی
اسی لئے قبر امتحان کی پہلی منزل ہے ۔ اگر
مردہ اس میں کامیاب رہا تو بقیہ میں بھی کامیاب
ہوگا ۔ اگر وہ فیل ہوگیا تو ما بقیہ میں
بھی فیل ہو سکتا ہے۔ اسی لئے سرکار مدینہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے شیطان کو بھگانے کے لیے ایک عظیم کیمیا بتایا کہ بعد دفن
اذان پڑھو شیطان بھا گ جائے گا۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت مروی ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا مؤذن اذان کہتا ہے تو شیطان پیٹھ پھیرکر گوز مارتا (ریخ خارج کرتا ہوا) بھاگتا ہے۔
جس طرح موت کے وقت شیطان میت کو ورغلاتا ہے اور کہتاہے کہ اس کا ایمان چھین لے اسی طرح بعددفن قبر میں بھی پہونچتا ہے اور کہتا ہے کہ تم مجھے خدا مان لے، تجھے ہر پریشانی سے بچالوں گااور اپنی جنت میں پہنچا دوں گا۔جیسا کہ نوادرلاصول کے حوالے سے تجہیز وتکفین کا شرعی مقام کے صفحہ ١٧١ پر ہے جب مردے سے سوال ہوتا ہے کہ تیرا رب کون ہے تو شیطان اپنی طرف اشارہ کرتا ہے۔اور کہتا ہے کہ میں تیرا رب ہوں اس لیے حکم آیا ہے کہ میت کے لیے جواب میں ثابت قدم رہنے کی دعا کریں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےسوالات کے وقت اس کے لئےثابت قدم رہنے کی دعا فرمائی ہے۔ مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ دفن میت کے بعد اس کلمہ طیبہ کی تلقین مستحب ہے کیونکہ یہ وقت امتحان قبر کا ہے تاکہ مردہ نکیرین کے سوالات میں کامیاب ہو۔ اور اذان میں بھی کلمہ ہے۔ لہذا یہ تلقین میت ہے۔ بلکہ اذان میں پوری تلقین ہے۔ نکرین کے سارے سوالات کے جوابات موجود ہیں اس سے میت کے دل کو تسکین بھی ہے اور شیاطین کا دفع بھی اور اگر قبر میں آگ ہے تو اس کی برکت سے بجھے گی، اسی لئے پیدائش کے وقت بچے کے کان میں،دل کی گھبراہٹ، آگ لگنے، جنات کے غلبہ، غمزدہ اور بیماری وغیرہ پر آذان دینا سنت ومستحب ہے ۔ علامہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عمل مشائخ سنت کہ اذان بر قبر بعد دفن می گویند۔(ملفوظات عزیزی حوالہ ملک العلماء صفحہ ٣٦٧)
اس سے معلوم ہوا کہ بعد دفن قبر پر اذان دینے کا
سلسلہ بزرگوں سے چلا آ رہا ہے۔ اور وہ سب
حدیثیں اس عمل خیر کی اصل ہیں۔
No comments:
Post a Comment